جشنِ غمِ حیات منانے نہیں دیا
اس مفلسی نے زہر بھی کھانے نہیں دیا
ہم نے جو سادہ لوحی میں کھایا کوئی فریب
پھر وہ فریب اوروں کو کھانے نہیں دیا
آندھی نے روشنی کی حمایت تو کی بہت
اک آدھ گھر تو جل گیا، پر شہر بچ گیا
اب کے دِئیے کا ساتھ ہوا نے نہیں دیا
راضی تھا میں بھی اور مِرا دشمن بھی صلح پر
کچھ دوستوں نے ہاتھ ملانے نہیں دیا
نواز دیوبندی
No comments:
Post a Comment