خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے
اشک گل رنگ تھے وہ ہم جنہیں پانی سمجھے
کون کرتا ہے خرابوں میں دفینوں کی تلاش
کس کو فرصت ہے جو زخموں کے معانی سمجھے
کیسے مِٹ جاتی ہے آنکھوں سے وفا کی تحریر
جب بھی دیکھا ہے اسے ہم نے نئے زخم ملے
کون اس شخص کی تصویر پرانی سمجھے
آنچ تھی اپنے سلگتے ہوئے غم کی راشدؔ
لوگ جس کو ہنرِ شعلہ بیانی سمجھے
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment