سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
تِِرے بدن کا فسوں بھی شراب جیسا ہے
ہنسے وہ لاکھ مگر ضبطِ غم کی تحریریں
نہ چھپ سکیں گی کہ چہرہ کتاب جیسا ہے
ملے گا پاس سے کبھی بھی نہ خاک و خوں کے سوا
نہ کوئی پیڑ نہ سایہ، نہ آہٹوں کا گماں
یہ جستجو کا سفر بھی عذاب جیسا ہے
وہ سامنے ہے مگر اس کو چھو نہیں سکتا
میں پوجتا ہوں ہو پیکر جو خواب جیسا ہے
سلگ رہے ہو یونہی غم کی دھوپ میں راشدؔ
وہ ہاتھ چوم کے دیکھو، گلاب جیسا ہے
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment