پتھر سلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا
ہم اس طرف چلے تھے جدھر راستہ نہ تھا
پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نہ پوچھ
اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سوا نہ تھا
یوں دیکھتی ہے گمشدہ لمحوں کے موڑ سے
چہروں پہ جم گئی تھیں خیالوں کی الجھنیں
لفظوں کی جستجو میں کوئی بولتا نہ تھا
خورشید کیا ابھارتے دل کی تہوں سے ہم
اس انجمن میں کوئی سحر آشنا نہ تھا
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment