Tuesday 22 December 2015

چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی

چکھی ہے لمحے لمحے کی ہم نے مٹھاس بھی 
یہ اور بات ہے کہ رہے ہیں اداس بھی 
ان اجنبی لبوں پہ تبسم کی اک لکیر
لگتا ہے ایسی شے تھی کبھی اپنے پاس بھی
منسوب ہوں گی اور بھی اس سے حکایتیں
یہ زخمِ دل کہ آج ہے جو بے لباس بھی
پھیلا ہوا تھا صدیوں تلک اس کا سلسلہ 
دریا کے ساتھ ساتھ بڑھی اپنی پیاس بھی
ناصر کو رو رہا ہوں کہ تھا میرا ہم سخن
گو اس سے ہو سکا نہ کبھی روشناس بھی

خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment