Tuesday 22 December 2015

لب فرات وہی تشنگی کا منظر ہے

لبِ فرات وہی تشنگی کا منظر ہے
وہی حسین، وہی قاتلوں کا لشکر ہے
یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو
ہنسی لبوں پہ ہے، سینے میں غم کا دفتر ہے
یقین کس پہ کریں، کس کو دوست ٹھہرائیں
ہر آستِین میں پوشیدہ کوئی خنجر ہے
گلہ نہیں مِرے ہونٹوں پہ تنگدستی کا
خدا کا شکر مِرا دل ابھی تونگر ہے
کوئی تو ہے جو دھڑکتا ہے زندگی بن کر
کوئی تو ہے جو ہمارے دلوں کے اندر ہے
اسے قریب سے دیکھا تو یہ ہوا معلوم
وہ بوئے گل نہیں شمشیرِ بادِ صرصر ہے
سمجھ کے آگ لگانا ہمارے گھر میں تم
ہمارے گھر کے برابر تمہارا بھی گھر ہے
مِری جبیں کو حقارت سے دیکھنے والے 
مِری جبیں سے تِرا آستاں منور ہے
تمہارے قرب کی لذت نصیب ہے جس کو
وہ ایک لمحۂ حیات ابد سے بہتر ہے
ہمارا جرم یہی ہے کہ حق پرست ہیں ہم
ہمارے خون کا پیاسا ہر ایک خنجر ہے
وہ میرے سامنے آئے تو کس طرح آئے
کوئی لباس ہے اس کا نہ کوئی پیکر ہے
ہر اک بلا سے بچائے ہوئے ہے جو ہم کو
ہمارے سر پہ یہ ماں کی دعا چادر ہے
بھٹک رہا ہوں میں صدیوں سے دشتِ غربت میں
کوئی تو مجھ کو بتائے کہاں مِرا گھر ہے
ابھی حفیظؔ گلابوں کی بات مت کیجے
لہو لہان ابھی گلستاں کا منظر ہے​

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment