آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے
ہم چھاؤں میں زلفوں کی آرام نہیں لیں گے
ہو دل کا لہو جس میں وہ جام نہیں لیں گے
انعام یہی ہے تو انعام نہیں لیں گے
قاتل کے گھرانے سے ان کا بھی تعلق ہے
یا سب کو پلا ساقی، یا ہم کو بھی پیاسا رکھ
تنہا تِرے ہاتھوں سے ہم جام نہیں لیں گے
اِس نام کی نسبت سے کھائے ہیں فریب اتنے
بھولے سے محبت کا اب نام نہیں لیں گے
روئیں گے حفیظؔ اپنی محرومئ قسمت پر
گو قوتِ بازو سے جو کام نہیں لیں گے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment