Tuesday, 22 December 2015

آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے

آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے
ہم چھاؤں میں زلفوں کی آرام نہیں لیں گے
ہو دل کا لہو جس میں وہ جام نہیں لیں گے
انعام یہی ہے تو انعام نہیں لیں گے
قاتل کے گھرانے سے ان کا بھی تعلق ہے
کھل کر کبھی قاتل کا وہ نام نہیں لیں گے
یا سب کو پلا ساقی، یا ہم کو بھی پیاسا رکھ
تنہا تِرے ہاتھوں سے ہم جام نہیں لیں گے
اِس نام کی نسبت سے کھائے ہیں فریب اتنے
بھولے سے محبت کا اب نام نہیں لیں گے
روئیں گے حفیظؔ اپنی محرومئ قسمت پر
گو قوتِ بازو سے جو کام نہیں لیں گے

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment