درپردہ مِرے قتل کی تیاری کرے ہے
تو پیار کرے ہے کہ اداکاری کرے ہے
کہتی ہے کہ اک بت کو خدا مانیے اپنا
کیا کیا نہ ستم عشق کی بیماری کرے ہے
جو کام کسی برقِ تپاں سے نہیں ہوتا
ہر شخص سے بڑھ کر وہی کنگال ہے یارو
نیلام جو سرمایۂ خود داری کرے ہے
سوکھے ہوئے پتوں کا جو اک رقص ہے جاری
شاید کہ خزاں کوچ کی تیاری کرے ہے
مایوس نہیں ہوں میں حفیظؔ اس کے کرم سے
پتھر سے بھی وہ جوئے لبن جاری کرے ہے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment