Sunday 20 December 2015

یہ بار فلک ہم نے زمیں پر نہیں رکھا

یہ بارِ فلک ہم نے زمیں پر نہیں رکھا
تھک کر کسی کاندھے پہ کبھی سر نہیں رکھا
اس نے نے بھی ہواؤں کے ابھی رخ نہیں بدلے
میں نے بھی چراغوں کو بجھا کر نہیں رکھا
میں نے بھی اسے خار سے تشبیہ نہیں دی
اس نے بھی میرا نام گلِ تر نہیں رکھا
کیوں ٹھوکریں لگتی ہیں کہ جب ہم نے کبھی بھی
رستے میں کسی کے کوئی پتھر نہیں رکھا
تاریخ سے واقف ہے جو بیٹے کا انہوں نے
رکھا ہے علی نام، سکندر نہیں رکھا

نواز دیوبندی

No comments:

Post a Comment