Tuesday, 22 December 2015

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلاے کے رہ گئے

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے
مشتاقِ دید اور بھی للچا کے رہ گئے
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا مِرا خیال تو شرما کے رہ گئے
جب عاشقوں سے صدمۂ ہجراں نہ اٹھ سکا
آخر کار ایک روز وہ سَم کھا کے رہ گئے
ملنے کی ان سے ایک بھی صورت نہ بن پڑی
سارے مسودے دلِ دانا کے رہ گئے
پہلے تو خون میرا بہایا خوشی خوشی
پھر کیا وہ خود ہی سوچے کہ پچتا کے رہ گئے
دعوائے عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ
یہ کیا کہ ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment