پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے
مشتاقِ دید اور بھی للچا کے رہ گئے
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا مِرا خیال تو شرما کے رہ گئے
جب عاشقوں سے صدمۂ ہجراں نہ اٹھ سکا
ملنے کی ان سے ایک بھی صورت نہ بن پڑی
سارے مسودے دلِ دانا کے رہ گئے
پہلے تو خون میرا بہایا خوشی خوشی
پھر کیا وہ خود ہی سوچے کہ پچتا کے رہ گئے
دعوائے عاشقی ہے تو حسرتؔ کرو نباہ
یہ کیا کہ ابتدا ہی میں گھبرا کے رہ گئے
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment