Wednesday 2 December 2015

زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام

فلمی گیت

زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

پھول کھلتے ہیں، لوگ ملتے ہیں، مگر
پت جھڑ میں جو پھول مرجھا جاتے ہیں
وہ بہاروں کے آنے سے کھلتے نہیں
کچھ لوگ اک روز جو بچھڑ جاتے ہیں
وہ ہزاروں کے آنے سے ملتے نہیں
عمر بھر چاہے کوئی پكارا کرے ان کا نام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

آنکھ دھوکا ہے، کیا بھروسا ہے، سنو
دوستو، شک دوستی کا دشمن ہے
اپنے دل میں اسے گھر بنانے نہ دو
کل تڑپنا پڑے یاد میں جن کی
روک لو، روٹھ کر ان کو جانے نہ دو
بعد میں پیار کے چاہے بھیجو ہزاروں سلام
وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

صبح آتی ہے، رات جاتی ہے، یونہی
وقت چلتا ہی رہتا ہے، ركتا نہیں
ایک پل میں یہ آگے نکل جاتا ہے
آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا نہیں
اور پردے پر منظر بدل جاتا ہے
ایک بار چلے جاتے ہیں، جو دن رات صبح شام
وہ وہ پھر نہیں آتے، وہ پھر نہیں آتے

آنند بخشی

1 comment: