ملتے ہیں اس ادا سے گویا خفا نہیں
کیا آپ کی نگاہ میں آشنا نہیں
تسکینِ ہمنشیں سے بڑھا درد اور بھی
یعنی، غمِ فراق کی کوئی دوا نہیں
شوقِ بقائے درد کی ہیں ساری خاطریں
کب تک کسی کے نازِ تغافل اٹھائے دل
کیا امتحانِ صبر کی کچھ انتہا نہیں
شوقِ جفا سے آج تلک ان سے رسم ہے
کہتا ہے ان کو کون کہ وہ باوفا نہیں
حسرتؔ مِرے کلام میں مومن کے رنگ ہیں
ملکِ سخن میں مجھ سا کوئی دوسرا نہیں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment