اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسو
پھیلے جاتے ہیں رخِ یار پہ سارے گیسو
نورِ ایماں کے معاون ہیں تمہارے عارض
کفرِ عشاق کے حامی ہیں تمہارے گیسو
کام آئے گی وہ کیا ان کی پریشانی میں
مائلِ شوق مجھے پا کے وہ بولے ہنس کر
دیکھو تم نے جو چھوئے آج ہمارے گیسو
ظلمتِ زلف سے نورِ رخِ خوباں نہ دبا
جیت عارض کی ہوئی شرط میں ہارے گیسو
فاتحہ پڑھنے چلے مرقدِ حسرتؔ پہ جو وہ
پہلے کس ناز سے رو رو کے سنوارے گیسو
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment