Wednesday 23 December 2015

اپنا تو نہیں یار میں کچھ یار ہوں تیرا

اپنا تو نہیں یار میں کچھ، یار ہوں تیرا
تُو جس کی طرف ہووے، طرفدار ہوں تیرا
کُڑھنے پہ مِرے، جی نہ کُڑھا، تیری بلا سے
اپنا تو نہیں غم مجھے، غم خوار ہوں تیرا
تُو چاہے نہ چاہے، مجھے کچھ کام نہیں ہے
آزاد ہوں اس سے بھی، گرفتار ہوں تیرا
تُو ہووے جہاں، مجھ کو بھی ہونا وہیں لازم
تُو گُل ہے مِری جان! تو میں خار ہوں تیرا
ہے عشق سے میرے یہ تِرے حسن کا شُہرہ
میں کچھ نہیں، پر گرمئ بازار ہوں تیرا
میری بھی طرف تو کبھی آ جا، مِرے یوسف
بڑھیا کی طرح، میں بھی خریدار ہوں تیرا
اے دردؔ! مجھے کچھ نہیں اب اور تو آزار
اس چشم سے کہہ دینا کہ بیمار ہوں تیرا

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment