ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے، جو کچھ آرزو کریں
مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمایاں
ہم آئینہ کے سامنے جب آ کے ہُو کریں
تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جائیو
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئینہ ہوں، پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں
نے گل کو ہے ثبات، نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن! ہوسِ رنگ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدانِ شہر
اے دردؔ آ کے بیعتِ دستِ سبو کریں
خواجہ میر درد
No comments:
Post a Comment