آرام سے کبھو بھی نہ یکبار سو گئے
ایسے ہمارے طالعِ بیدار سو گئے
خوابِ عدم سے چونکے تھے ہم تیرے واسطے
آخر کو جاگ جاگ کے ناچار سو گئے
اٹھتی نہیں ہے خانۂ زنجیر سے صدا
تیری گلی ہے یا کوئی آرام گاہ ہے
رکھتے قدم کے، پانو تو ہر بار سو گئے
دے مر چکے، جو رونقِ بزمِ جہان تھے
اب اٹھیے دردؔ یاں سے کہ سب یار سو گئے
خواجہ میر درد
No comments:
Post a Comment