Wednesday 23 December 2015

آرام سے کبھو بھی نہ یک بار سو گئے

آرام سے کبھو بھی نہ یکبار سو گئے 
ایسے ہمارے طالعِ بیدار سو گئے
خوابِ عدم سے چونکے تھے ہم تیرے واسطے 
آخر کو جاگ جاگ کے ناچار سو گئے
اٹھتی نہیں ہے خانۂ زنجیر سے صدا 
دیکھو تو، کیا سبھی یہ گرفتار سو گئے   
تیری گلی ہے یا کوئی آرام گاہ ہے 
رکھتے قدم کے، پانو تو ہر بار سو گئے   
دے مر چکے، جو رونقِ بزمِ جہان تھے
اب اٹھیے دردؔ یاں سے کہ سب یار سو گئے

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment