Wednesday 23 December 2015

چھیڑتی ہے جو یاد یار بہت

چھیڑتی ہے جو یادِ یار بہت
دل شبِ غم ہے بے قرار بہت
اب نہ دیکھیں گے تیری راہ کو ہم
رہ چکے ہیں خراب و خوار بہت
ہم اسیرانِ ہجر کو نہ رلا
دیکھ اے ابرؐ نوبہار! بہت
لطف ہے پھر بھی ہم پہ غیر سے کم
'آپ کہتے رہیں ہزار'بہت
حالِ دل کم کہا کرو حسرتؔ
ان کو ہوتا ہے ناگوار بہت

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment