چھیڑتی ہے جو یادِ یار بہت
دل شبِ غم ہے بے قرار بہت
اب نہ دیکھیں گے تیری راہ کو ہم
رہ چکے ہیں خراب و خوار بہت
ہم اسیرانِ ہجر کو نہ رلا
لطف ہے پھر بھی ہم پہ غیر سے کم
'آپ کہتے رہیں ہزار'بہت
حالِ دل کم کہا کرو حسرتؔ
ان کو ہوتا ہے ناگوار بہت
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment