مِرا قلم، مِرے جذبات مانگنے والے
مجھے نہ مانگ ، مِرا ہاتھ مانگنے والے
یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے
یہ سب تھے بھیک مِرے ساتھ مانگنے والے
اٹھا سکے گا نہ سینے پہ یہ سیاہ پہاڑ
سکون دے گیا شاید انہیں کھُلا میدان
خموش کیوں ہیں مکانات مانگنے والے
تُو اپنے دشت میں پیاسا مَرے تو اچھا ہے
سمندروں سے عنایات مانگنے والے
کچھ اپنے خون کی سرخی کا اعتبار بھی کر
شفق سے رنگ کی خیرات مانگنے والے
ظفر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment