گیت
مجبوری کے موسم میں بھی جینا پڑتا ہے
تھوڑا سا سمجھوتہ جانم کرنا پڑتا ہے
کبھی کبھی کچھ اِس حد تک بڑھ جاتی ہے لاچاری
لگتا ہے یہ جیون جیسے بوجھ ہو کوئی بھاری
کبھی کبھی اتنی دھندلی ہو جاتی ہیں تصویریں
پتا نہیں چلتا، قدموں میں کتنی ہیں زنجیریں
پاؤں بندھے ہوتے ہیں، لیکن چلنا پڑتا ہے
روٹھ کے جانے والے بادل، ٹوٹنے والے تارا
کس کو خبر کن لمحوں میں بن جائے کون سہارا
یار جیسا بھی ہو، رشتہ نبھانا پڑتا ہے
ظفر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment