گیت
جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا
تم کو جب نیند نہ آئے تو مجھے خط لکھنا
نیلے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں ہنستا ساون
پیاسی دھرتی میں سمانے کو ترستا ساون
رات بھر چھت پہ لگاتار برستا ساون
جب پھڑک اٹھے کسی شاخ پہ پتہ کوئی
گدگدائے تمہیں بِیتا ہوا لمحہ کوئی
جب میری یاد کا بے چین سفینہ کوئی
جی کو رہ رہ کے جلائے تو مجھے خط لکھنا
جب نگاہوں کے لیے کوئی نظارا نہ رہے
چاند چھپ جائے گگن پر کوئی تارا نہ رہے
بھرے سنسار میں جب کوئی سہارا نہ رہے
لوگ ہو جائیں پرائے تو مجھے خط لکھنا
ظفر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment