Friday 18 December 2015

جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا

گیت

جب میری یاد ستائے تو مجھے خط لکھنا
تم کو جب نیند نہ آئے تو مجھے خط لکھنا

نیلے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں ہنستا ساون
پیاسی دھرتی میں سمانے کو ترستا ساون
رات بھر چھت پہ لگاتار برستا ساون
دل میں جب آگ لگائے تو مجھے خط لکھنا

جب پھڑک اٹھے کسی شاخ پہ پتہ کوئی
گدگدائے تمہیں بِیتا ہوا لمحہ کوئی
جب میری یاد کا بے چین سفینہ کوئی
جی کو رہ رہ کے جلائے تو مجھے خط لکھنا

جب نگاہوں کے لیے کوئی نظارا نہ رہے
چاند چھپ جائے گگن پر کوئی تارا نہ رہے
بھرے سنسار میں جب کوئی سہارا نہ رہے
لوگ ہو جائیں پرائے تو مجھے خط لکھنا

ظفر گورکھپوری

No comments:

Post a Comment