دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشا کیا ہے، اب معلوم ہوا
ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ
اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے، اب معلوم ہوا
ہم برسوں کے بعد بھی ان کو اب تک بھول نہ پائے
صحرا صحرا پیاسے بھٹکے ساری عمر جلے
بادل کا ایک ٹکڑا کیا ہے، اب معلوم ہوا
ظفر گورکھپوری
No comments:
Post a Comment