اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
کس کو ہے ذوقِ تلخ کامی لیک
جنگ بِن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ، دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کِیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجیے مِرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا! نہیں ہوتا
آہ طولِ عمل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مِرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیونکر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
صبر تھا اِک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
مومن خان مومن
No comments:
Post a Comment