Friday 18 December 2015

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی
ملا کے نظروں کو والہانہ حیا سے پھر
جھکا لے کوئی نظر تو سمجھو غزل ہوئی
اِدھر مچل کر انہیں پکارے جنوں میرا
دھڑک اٹھے دل اُدھر تو سمجھو غزل ہوئی
اداس بستر کی سلوٹیں جب تمہیں چبھیں
نہ سو سکو رات بھر تو سمجھو غزل ہوئی
وہ بدگماں ہوں تو شعر سُوجھے نہ شاعری
وہ مہرباں ہوں ظفرؔ تو سمجھو غزل ہوئی 

ظفر گورکھپوری

No comments:

Post a Comment