محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آ گیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آ گیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آ گیا
دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوۂ بے داد آ گیا
وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مِرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آ گیا
تھے بے گناہ جرأتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آ گیا
جب ہو چکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آ گیا
ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومنؔ میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آ گیا
مومن خان مومن
No comments:
Post a Comment