کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دُنیا ہے، تِری زلفِ گرہ گیر نہیں ہے
کیوں تیری نوازش نہیں اب دیدہ و دل پر
کیا اب تِرے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے
ٹوکیں گے تجھے ہم تِرے اندازِ غلط پر
ہر طرح کی پابندی ہے میرے لیے لیکن
اُس شوخ کی خاطر کوئی زنجیر نہیں ہے
گر کوئی گلہ ہے تو حفیظؔ اپنے عمل سے
ہونٹوں پہ مِرے شکوۂ تقدیر نہیں ہے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment