رازِ حیات شمع سے پروانہ کہہ گیا
فرزانگی کی بات تھی دیوانہ کہہ گیا
پوچھا تھا آپ نے مِرا افسانۂ حیات
میں بے خودی میں آپ کا افسانہ کہہ گیا
جو بات عشق کہہ نہ سکا کھل کے دار پر
پی کر بغیر جام بہ ایں زہد و اتقا
زاہد بھی تیری آنکھ کو پیمانہ کہہ گیا
منصور کی یہی تھی خطا راہِ عشق میں
جلوے کو اپنے جلوۂ جانانہ کہہ گیا
اپنوں کے دل میں مہرومحبت نہ کر تلاش
یہ بات کس خلوص سے بے گانہ کہہ گیا
میں اس خیال سے کہ نہ ٹوٹے بتوں کا دل
کعبے کو احتیاط سے بت خانہ کہہ گیا
بندہ نواز تجھ کو سمجھ کر طفیلؔ آج
شعروں میں اپنا حال فقیرانہ کہہ گیا
طفیل ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment