Saturday 19 December 2015

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل بھی گئی جس سے ہُوا ہے قتل مِرا 
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا 
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment