مرحلہ دید کا تکرار تک آ پہنچا ہے
طور سے چل کے جنوں دار تک آ پہنچا ہے
بات آ پہنچی ہے اندیشۂ رسوائی تک
جذبۂ دل لب اظہار تک آ پہنچا ہے
شعلۂ عشق جو روشن ہے مِرے سینے میں
نام کو بھی نہیں اب دل میں کدورت کا نشاں
آئینہ عکس رخ یار تک آ پہنچا ہے
حسن مستور اسے اپنی تجلی سے نواز
ایک سایہ تِری دیوار تک آ پہنچا ہے
شمع نے لے لیا آغوش میں پروانے کو
جب یہ سمجھی مِرے معیار تک آ پہنچا ہے
ان کی سرشار نگاہوں کا تصور جیسے
مے کدہ خود لبِ مے خوار تک آ پہنچا ہے
اب کسے منزلِ جاناں پہ رسائی کا خیال
ہر قدم کوشش بے کار تک آ پہنچا ہے
برملا کہتی ہے یہ وقت کے ماتھے کی شکن
دور یہ کیفر کردار تک آ پہنچا ہے
مطمئن قبر کی آغوش میں ایسے ہے طفیل
راہرو جیسے درِ یار تک آ پہنچا ہے
طفیل ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment