دل کی بارش سہی مدہم، ذرا آہستہ چل
دل کی مٹی ہے ابھی تک نم، ذرا آہستہ چل
تیرے ملنے اور پھر تِرے بچھڑ جانے کے بیچ
فاصلہ رسوائی کا ہے کم، ذرا آہستہ چل
اپنے دل ہی میں ہی نہیں ہے اس کی محرومی کی یاد
کوئی بھی ہو ہمسفر راشدؔ نہ ہو خوش اس قدر
اب کے لوگوں میں وفا ہے کم، ذرا آہستہ دل
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment