Sunday, 20 December 2015

دل کی بارش سہی مدہم ذرا آہستہ چل

دل کی بارش سہی مدہم، ذرا آہستہ چل
دل کی مٹی ہے ابھی تک نم، ذرا آہستہ چل
تیرے ملنے اور پھر تِرے بچھڑ جانے کے بیچ 
فاصلہ رسوائی کا ہے کم، ذرا آہستہ چل
اپنے دل ہی میں ہی نہیں ہے اس کی محرومی کی یاد 
اس کی آنکھوں میں بھی ہے شبنم، ذرا آہستہ چل
کوئی بھی ہو ہمسفر راشدؔ نہ ہو خوش اس قدر 
اب کے لوگوں میں وفا ہے کم، ذرا آہستہ دل

ممتاز راشد

No comments:

Post a Comment