گھر چھوڑ کے بھی زندگی حیرانیوں میں ہے
شہروں کا شور دشت کی ویرانیوں میں ہے
ڈرتا ہوں یہ بھی وقت کے ہاتھوں سے مِٹ نہ جائے
ہلکی سی جو چمک ابھی پیشانیوں میں ہے
کتنا کہا تھا اس سے کہ دامن سمیٹ لے
لہروں میں ڈھونڈتا ہوں میں کھوئے ہوئے نگین
چہروں کا عکس بہتے ہوئے پانیوں میں ہے
ممتاز راشد
No comments:
Post a Comment