Friday 18 December 2015

گھر چھوڑ کے بھی زندگی حیرانیوں میں ہے

گھر چھوڑ کے بھی زندگی حیرانیوں میں ہے
شہروں کا شور دشت کی ویرانیوں میں ہے
ڈرتا ہوں یہ بھی وقت کے ہاتھوں سے مِٹ نہ جائے
ہلکی سی جو چمک ابھی پیشانیوں میں ہے
کتنا کہا تھا اس سے کہ دامن سمیٹ لے
اب وہ بھی میرے ساتھ پریشانیوں میں ہے
لہروں میں ڈھونڈتا ہوں میں کھوئے ہوئے نگین
چہروں کا عکس بہتے ہوئے پانیوں میں ہے

ممتاز راشد

No comments:

Post a Comment