رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے
نیند آنکھوں سے اڑی کھول کے شہپر اپنے
تم سرِ دشت و چمن مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو
میں تو ہر رُت میں بدل دیتا ہوں پیکر اپنے
یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر
روز وہ شخص صدا دے کے پلٹ جاتا ہے
میں بھی رہتا ہوں بہت جسم سے باہر اپنے
کس قدر پاسِ مروّت ہے وفاداروں کو
میرے سینے میں چھپا رکھے ہیں خنجر اپنے
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment