کچھ تو عہدِ خوں فشانی اور ہے
کچھ مِری آنکھوں نے ٹھانی اور ہے
وسعتِ صحرائے عالم سے ادھر
دشتِ غم کی بیکرانی اور ہے
یا ادھوری ہے گواہی عشق کی
یوں بضِد ہے آنکھ رونے پر ابھی
جیسے اس دریا میں پانی اور ہے
شعلۂ خورشیدِ محشر کی قسم
اس کا معیارِ جوانی اور ہے
اِک وہ خود ہے جھٹپٹے کی چاندنی
اِک دوپٹہ اس پہ دھانی اور ہے
سب رُتیں دیکھی ہیں اِس دل نے مگر
اب کے موسم میں گِرانی اور ہے
ڈوب جانے دو ستارہ صبح کا
اس کے آنے کی نشانی اور ہے
داستاں ہے اور آنکھوں میں مگر
دِل میں پوشیدہ کہانی اور ہے
عشق میں محسنؔ کہاں کا جیتنا
ہارنے میں کامرانی اور ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment