Wednesday 10 June 2015

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر
راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر
ٹوٹ کر بکھری ہوئی تلوار کے ٹکڑے سمیٹ
اور اپنے ہار جانے کا سبب معلوم کر
جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو غزل کا نام دے
رات بھر کی کروٹوں کا ذائقہ منظوم کر
شام تک لوٹ آؤں گا ہاتھوں کا خالی پن لئے
آج پھر نکلا ہوں میں گھر سے ہتھیلی چوم کر
مت سِکھا لہجے کو اپنی برچھیوں کے پینترے
زندہ رہنا ہے تو لہجے کا ذرا معصوم کر

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment