اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا
ایک سفر ہے وادئ جاں میں تیرے دردِ ہجر کے ساتھ
تیرا دردِ ہجر جو بڑھ کر لذتِ کیفِ وصال ہوا
راہِ وفا میں جاں دینا بھی پیشرؤوں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا، جینا کارِ مثال ہوا
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشقِ صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہِ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرہ کمہلایا اور رنگِ حِنا پامال ہوا
کوئی نیا احساس ملا، یا سب جیسا احوال ہوا
ایک سفر ہے وادئ جاں میں تیرے دردِ ہجر کے ساتھ
تیرا دردِ ہجر جو بڑھ کر لذتِ کیفِ وصال ہوا
راہِ وفا میں جاں دینا بھی پیشرؤوں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا، جینا کارِ مثال ہوا
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشقِ صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہِ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرہ کمہلایا اور رنگِ حِنا پامال ہوا
اطہر نفیس
No comments:
Post a Comment