Monday 15 June 2015

کاسنی زمانوں سے وجد کے جہانوں سے

کاسنی زمانوں سے 
وجد کے جہانوں سے 
دھیان آسمانوں سے 
کم سخن ستاروں کی
کچھ بزرگ یاروں کی 
با وقار تنہائی 
مجھ سے ملنے آئی ہے 
آج میری خلوت میں
جلوتِ مقدس ہے 
جلوتِ مقدس میں 
وہ قدیم خوشبو ہے 
وہ ندیم حیرت ہے 
جس کی میزبانی کو 
دو جہاں ترستے ہیں
آج رنگ کا اظہار 
موج سے زیادہ ہے 
مست ہیں در و دیوار 
ظرفِ جاں کشادہ ہے 
گفتگو معطل ہے 
حالِ بے ارادہ ہے 
کیا حسِین شب ہے یہ 
قربتِ طرب ہے یہ 
وہ جو کل نہیں ہو گا 
آج اور اب ہے یہ 
لا تخف دلِ وحشی 
تیرا سب کا سب ہے یہ 
باالیقیں علی زریون
یار کے سبب ہے یہ 
شب نہیں ہے، رب ہے یہ

علی زریون

No comments:

Post a Comment