کاسنی زمانوں سے
وجد کے جہانوں سے
دھیان آسمانوں سے
کم سخن ستاروں کی
کچھ بزرگ یاروں کی
با وقار تنہائی
آج میری خلوت میں
جلوتِ مقدس ہے
جلوتِ مقدس میں
وہ قدیم خوشبو ہے
وہ ندیم حیرت ہے
جس کی میزبانی کو
دو جہاں ترستے ہیں
آج رنگ کا اظہار
موج سے زیادہ ہے
مست ہیں در و دیوار
ظرفِ جاں کشادہ ہے
گفتگو معطل ہے
حالِ بے ارادہ ہے
کیا حسِین شب ہے یہ
قربتِ طرب ہے یہ
وہ جو کل نہیں ہو گا
آج اور اب ہے یہ
لا تخف دلِ وحشی
تیرا سب کا سب ہے یہ
باالیقیں علی زریون
یار کے سبب ہے یہ
شب نہیں ہے، رب ہے یہ
علی زریون
No comments:
Post a Comment