جاناں! دل کا شہر، نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر، افسوس کا ہے
کس چاہت سے زہرِ تمنا مانگا تھا
اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
اک دہلیز پہ جا کر دل خوش ہوتا تھا
ہم نے عشق، گناہ سے برتر جانا تھا
اور دل پر پہلا پتھر، افسوس کا ہے
دیکھو اس چاہت کے پیڑ کی شاخوں پر
پھول اداسی کا ہے، ثمر افسوس کا ہے
کوئی پچھتاوا سا پچھتاوا ہے، فرازؔ
دکھ کا نہیں افسوس، مگر افسوس کا ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment