Saturday, 20 June 2015

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے

اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے
یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حِدت ہے مگر
سرد "لہجے" میں "دسمبر" کا "اثر" لگتا ہے
جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا، تب سے
شہر "لاہور" بھی "جادو" کا "نگر" لگتا ہے
جانے کب گردشِ ایام بدل ڈالے تجھے
جیت کر تجھ کو مجھے ہار سے ڈر لگتا ہے
چاہے کتنی ہی سجاوٹ سے مزین ہو مگر
ماں نظر آئے تو گھر اصل میں گھر لگتا ہے
اس قدر اس کی نگاہوں میں تقدس ہے نہاں
سر جھکاتی ہوں تو "پیپل" کا شجر لگتا ہے 

پریا تابیتا

No comments:

Post a Comment