اک یہی وصف ہے اس میں جو امر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے
یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حِدت ہے مگر
سرد "لہجے" میں "دسمبر" کا "اثر" لگتا ہے
جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا، تب سے
شہر "لاہور" بھی "جادو" کا "نگر" لگتا ہے
جانے کب گردشِ ایام بدل ڈالے تجھے
جیت کر تجھ کو مجھے ہار سے ڈر لگتا ہے
چاہے کتنی ہی سجاوٹ سے مزین ہو مگر
ماں نظر آئے تو گھر اصل میں گھر لگتا ہے
اس قدر اس کی نگاہوں میں تقدس ہے نہاں
سر جھکاتی ہوں تو "پیپل" کا شجر لگتا ہے
وہ کڑی دھوپ میں برگد کا شجر لگتا ہے
یوں تو چاہت میں نہاں جون کی حِدت ہے مگر
سرد "لہجے" میں "دسمبر" کا "اثر" لگتا ہے
جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا، تب سے
شہر "لاہور" بھی "جادو" کا "نگر" لگتا ہے
جانے کب گردشِ ایام بدل ڈالے تجھے
جیت کر تجھ کو مجھے ہار سے ڈر لگتا ہے
چاہے کتنی ہی سجاوٹ سے مزین ہو مگر
ماں نظر آئے تو گھر اصل میں گھر لگتا ہے
اس قدر اس کی نگاہوں میں تقدس ہے نہاں
سر جھکاتی ہوں تو "پیپل" کا شجر لگتا ہے
پریا تابیتا
No comments:
Post a Comment