Wednesday, 10 June 2015

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
لہولہان پڑا تھا زمیں پہ اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے
زمیں پہ آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو
بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے
جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے
عجیب رنگ تھا مجلس کا، خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment