Sunday 14 June 2015

اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے

اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے
اک عمر اپنے مٹنے کے سامان سے رہے
اس جاں نواز کوچے میں ہم بھی رہے، مگر
بے دل کبھی رہے، کبھی بے جان سے رہے
رِندانِ مۓ کدہ ہیں کہ تنگ آ کے اٹھ گئے
یارانِ مۓ کدہ ہیں کہ انجان سے رہے
اس میں چمن کا رنگ نہ اس میں چمن کا روپ
ہم بُوئے گل سے آج پریشان سے رہے
لب سی لیے جو خندۂ یاراں کے خوف سے
برسوں ہمارے سینے میں طوفان سے رہے
یہ جان ایسی چیز ہے کیا پھر بھی ہمنشیں
ہم ان پہ جان دے کے پشیمان سے رہے
گلشن میں جوشِ گل تو بگولہ ہیں دشت میں
اہلِ جنوں جہاں بھی رہے، آن سے رہے

معین احسن جذبی

No comments:

Post a Comment