Monday, 1 June 2015

رشتہ تشنہ لبی وقت سے جوڑا جائے

رِشتہ تشنہ لبی وقت سے جوڑا جائے
لمحے لمحے کی رگِ جاں کو نچوڑا جائے
لطف تو جب ہے سفر کا کہ مِرے ہمسفرو
اپنے سائے کو بھی رَستے میں نہ چھوڑا جائے
دل تجھے بھولنا چاہے بھی تو مشکل یہ ہے
کس طرح سانس کی زنجیر کو توڑا جائے
شہرِ یاراں نہ سہی، دشت و بیاباں ہی سہی
سیلِ وحشت کو کسی سمت تو موڑا جائے
منصبِ شوق سے الجھی ہے سِناں کی خواہش
سر کو سنگِ درِ جاناں پہ نہ پھوڑا جائے
وہ پِگھلتا ہے کہاں ایک غزل سے محسنؔ
ایک تیشے سے تو کہسار نہ توڑا جائے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment