تُو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
پھول روئے تو اسے خندۂ شاداب سمجھ
کہیں آ جائے میسر تو مقدر تیرا
ورنہ آسودگئ دہر کو نایاب سمجھ
حسرتِ گریہ میں جو آگ ہے اشکوں میں نہیں
موجِ دریا ہی کو آوارۂ صد شوق نہ کہہ
ریگِ ساحل کو بھی لبِ تشنۂ سیلاب سمجھ
یہ بھی وا ہے کسی مانوس کرن کی خاطر
روزنِ در کو بھی اِک دیدۂ بے خواب سمجھ
اب کسے ساحلِ امید سے تکتا ہے فرازؔ
وہ جو ایک کشتئ دل تھی اسے غرقاب سمجھ
احمد فراز
No comments:
Post a Comment