Friday 5 June 2015

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا

اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا
میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا
کل تاریخ یقیناً خود کو دُھرائے گی
آج کے ایک اک منظر کو پہچان میں رکھنا
بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا
آج تو اے دل! ترکِ تعلق پر تم خوش ہو
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا
اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا
اس موسم میں گلدانوں کی رسم کہاں ہے
لوگو! اب پھولوں کو آتشدان میں رکھنا

احمد فراز​

No comments:

Post a Comment