کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخمِ دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی میں تیرے دریا سے پیاسا نکلا
جب کبھی تجھ کو پکارا مِری تنہائی نے
کوئی ملتا ہے تو اب اپنا پتہ پوچھتا ہوں
میں تری کھوج میں تجھ سے بھی پرے جا نکلا
مجھ سے چھپتا ہی رہا تُو مجھے آنکھیں دے کر
میں ہی پردہ تھا، اٹھا میں تو تماشا نکلا
توڑ کر دیکھ لیا آئینۂ دل تُو نے
تیری صورت کے سوا اور بتا کیا نکلا
نظر آیا تھا سرِ بام مظفرؔ کوئی
پہنچا دیوار کے نزدیک تو سایہ نکلا
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment