Thursday 4 June 2015

کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں

کڑی ہے دھوپ گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں، اوس میں نہاتے جائیں
یہ دل کی بھُول بھُلیاں، یہ ایک سے رَستے
ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں
سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب
چلے ہیں گھر سے تو جلتا دِیا بُجھاتے جائیں
یہ میری آپ کی ہمسائیگی کی آئینہ دار
جو ہو سکے تو یہ دیوار بھی گِراتے جائیں
مذاقِ اہلِ جہاں کو بھَلی لگے نہ لگے
شجر حجر تو سنیں گے، غزل سُناتے جائیں

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment