دل کی مسرتیں نئی، جاں کا ملال ہے نیا
میری غزل میں آج پھر ایک سوال ہے نیا
اب جو کھِلے ہیں دل میں پھول، ان کی بہار ہے نئی
اب جو لگی ہے دل میں آگ، اس کا جلال ہے نیا
اس کے لیے بھی غمزہ ناز و ادا کا وقت ہے
اپنے لئے بھی موسمِ ہجر و وصال ہے نیا
اس میں بھی خودنمائی کے رنگ بہت ہیں ان دنوں
اپنے لیے بھی عرصۂ خواب و خیال ہے نیا
روح میں جل اٹھے ہیں آج لذتِ قرب کے چراغ
سوز و گدازِ ہجر بھی شامل حال ہے نیا
جھوم اٹھے ہیں برگ و بار، پھول کھِلے ہیں بیشمار
اے میری روحِ بے قرار! تیرا تو حال ہے نیا
اس نے مِری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مِری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا
میری غزل میں آج پھر ایک سوال ہے نیا
اب جو کھِلے ہیں دل میں پھول، ان کی بہار ہے نئی
اب جو لگی ہے دل میں آگ، اس کا جلال ہے نیا
اس کے لیے بھی غمزہ ناز و ادا کا وقت ہے
اپنے لئے بھی موسمِ ہجر و وصال ہے نیا
اس میں بھی خودنمائی کے رنگ بہت ہیں ان دنوں
اپنے لیے بھی عرصۂ خواب و خیال ہے نیا
روح میں جل اٹھے ہیں آج لذتِ قرب کے چراغ
سوز و گدازِ ہجر بھی شامل حال ہے نیا
جھوم اٹھے ہیں برگ و بار، پھول کھِلے ہیں بیشمار
اے میری روحِ بے قرار! تیرا تو حال ہے نیا
اس نے مِری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مِری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا
اطہر نفیس
No comments:
Post a Comment