سیرِ دنیا کرے دل باغ کا در تو کھولے
یہ پرندہ کبھی پرواز کو پر تو کھولے
میں تو تا عمر تِرے شہر میں رکنا چاہوں
کوئی آ کر مِرا اسبابِ سفر تو کھولے
خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا
پر وہ شہزادہ مِری نیند کا در تو کھولے
پھول کچھ تیز مہک والے بھی اس بار کھلیں
آ کے برسات مِرا زخمِ جگر تو کھولے
کتنی آنکھیں ہیں جو بھولی نہیں شب پیمانی
بانوئے شہر مگر لطف کا در تو کھولے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment