Friday, 19 June 2015

سیر دنیا کرے دل باغ کا در تو کھولے

 سیرِ دنیا کرے دل باغ کا در تو کھولے

یہ پرندہ کبھی پرواز کو پر تو کھولے

میں تو تا عمر تِرے شہر میں رکنا چاہوں

کوئی آ کر مِرا اسبابِ سفر تو کھولے

خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا

پر وہ شہزادہ مِری نیند کا در تو کھولے

پھول کچھ تیز مہک والے بھی اس بار کھلیں

آ کے برسات مِرا زخمِ جگر تو کھولے

کتنی آنکھیں ہیں جو بھولی نہیں شب پیمانی

بانوئے شہر مگر لطف کا در تو کھولے


پروین شاکر

No comments:

Post a Comment