Friday 5 June 2015

گل ہو چراغ مے تو سزاوار سنگ ہیں

گل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
مینا سرشت ہم بھی شہیدانِ رنگ ہیں
مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
کس تیغ سے ہلاکِ نوا ہائے چنگ ہیں
دل خلوتِ خیال کی آرائشوں میں گم
آنکھیں، نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں
تاب و تواں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ
شیشہ صفات پھر بھی حریفانِ سنگ ہیں
اے حسنِ سادہ دل! تِری رسوائیاں نہ ہوں
کچھ لوگ کشتۂ ہوسِ نام و ننگ ہیں
معذور ہیں، تلوّنِ خاطر کو کیا کریں
ہم خود فرازؔ اپنی طبیعت سے تنگ ہیں

احمد فراز​

No comments:

Post a Comment