رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اِک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی
کیوں دیا دل اس بتِ کم سِن کو ایسے وقت میں
دل سی شے جس کے لیے بس اک کھلونا ہے ابھی
ایسی یادوں میں گھِرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں
جو ہُوا ہونا ہی تھا، سو ہو گیا ہے دوستو
داغ اس عہدِ ستم کا دل سے دھونا ہے ابھی
ہم نے کھِلتے دیکھنا ہے پھر خیابانِ بہار
شہر کے اطراف کی مٹی میں سونا ہے ابھی
بیٹھ جائیں سایۂ دامان احمدؐ میں منیرؔ
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment