Friday 5 June 2015

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

کچھ نہ کسی سے بولیں گے
تنہائی میں رو لیں گے
ہم بے راہرووں کا کیا
ساتھ کسی کے ہو لیں گے
خود تو ہوئے رسوا، لیکن
تیرے بھید نہ کھولیں گے
جیون زہر بھرا ساگر
کب تک امرت گھولیں گے
ہجر کی شب سونے والے
حشر کو آنکھیں کھولیں گے
پھر کوئی آندھی اٹھے گی
پنچھی جب پر تولیں گے
نیند تو کیا آئے گی فرازؔ
موت آئی تو سو لیں گے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment