زبانِ شیخ پہ ذکرِ عوام آیا ہے
مطالبہ ہے غریبوں کو حق دیا جائے
مطالبہ تو بہت سرخ ہے، مگر یا شیخ
پھر آپ ایسے امیروں کا کیا کِیا جائے
یہ کالا دھن یہ نحوست کی منڈیاں یا شیخ
خطا معاف، مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ
ہوئے ہیں جن کے مخالف، انہی کا کھاتے ہیں
اِدھر ہیں آپ، اُدھر وہ انا کا مارا ہُوا
جسے خبر ہے نہ کوئی پتا سیاست کا
جسے غرض ہے کہ بس میری 'میں' سنی جائے
بھلے جنازہ نکل جائے اہلِ غربت کا
عوام اس کے لئے گھر سے ہو گئے بے گھر
وہ اپنے گھر میں پڑا محو اپنے خواب میں ہے
کسی کھلاڑی و ملا کے بس کی بات نہیں
علاجِ کہنہ معیشت جس انقلاب میں ہے
یہ جس طریقِ 'سیہ ست' پہ آپ دونوں ہیں
انارکی کا بلاوا ہے، انقلاب نہیں
حضور یوں بھِی بہت خواب دیکھتے ہیں مگر
یہ جیتا جاگتا دن ہے یہ کوئی خواب نہیں
جہاں پہ آپ کھڑے ہیں وہاں سے ویسے بھی
کماندار کا لشکر زیادہ دور نہیں
حضور ان کو پکاریں گے جانتا ہوں میں
مگر حضور نہیں، بس مِرے حضور، نہیں
علی زریون
No comments:
Post a Comment